افغانستان کے اطباء کی تقسیم طب کا مستقبل۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
دیسی طب ایک شفاف چشمہ ہے۔اس کی جس کی ہر بوند اَمرت ہے۔جس کا نام شفاف ہے۔طب فطرت کا وہ انمول تحفہ ہے جس کی نمائیدگی ہمیشہ ایسے لوگوں نے کی ہے جنہیں مذہب پر مکمل یقین تھا۔وہ مذہبی شعائر کی ادائیگی میں بہت پختہ تھے۔تقوی و طہارت قوی تھا۔جن کی تشخیص بہترین تھی علاج بے بدل تھا۔وہ امراض و علاج۔غذا کے معاملہ مین کمال درجہ کی مہارت رکھتے ۔
آج بھی طب ایسے ہی لوگوںکے ہاتھ میں جنہیں مذہبی ہونے کا دعویٰ ہے۔مسلم ممالک میں امام مسجد جہاں جھاڑ پھونک کی ضروریات کی تکمیل کرتے تھے وہیں پر چند شیشیاں بھی حجرہ کی شان ہوا کرتی تھی تھیں۔جن سے ان کی روزی روٹی کا کچھ سامان ہوتا تھا۔جب سے نظریہ مفرد اعضاء جوکہ حضرت صابر ملتانیؒ پر الہام شدہ طریقہ ہے۔اور اسے ان کے شاگردوں نے زندگیاں لگا کر خون جگر پروان چڑھایا سامنے آیاہے۔پھر کیا تھا یار لوگوں کی نکل آئی اور ہر طرف نعرہ مستانہ بلند ہونے لگا کہ ۔ہم چوں دیگرے نیست۔۔
ہر نسخہ تیر بہدف ۔ہر سطر صدری مجربات۔نسخوں کے آگے پیچھے دلچسپ حکایات اور فوائد کا حاشیہ۔کل میرا مضمون۔(سعد طبیہ کالج کی طبی خدمات اورحکومت افغانستان کا رابطہ)
شائع ہوا تو بونیر سے ایک حکیم محمد عزیز نقشبندی صاحب نے رابطہ کیا اور افغانستان کے حکماء کے بارہ میں تفصیلات فراہم کیں(بونیرمیلہ گرائونڈ سواڑی میں ان کا اپنا دواخانہ اور ہسپتال نما ادارہ موجود ہے،ان کا” کنز الحکمت پشتو زبان میں “نام سےوٹس ایپ گرو بھی کام کرراہاے جس میںکثیر تعداد میں حکمائے افغانستان موجود ہیں)دولت اسلامیہ افغانستان میں ہمارے شاگردوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔بوقت ضرورت رابطہ بھی کرتے ہیں۔افغانستان کا نام سُن کر اسلامی معاشرہ کا تصور ابھر تا ہے۔میڈیا کے توسط سے جو خبریں گردش کرتی ہیں ان سے دلی سکون ملتا ہے۔
اطباء کی بیماری۔
جو بیماری نے پاک وہند کے طب اور اطباء کی جڑی کھوکھلی کیں(دھڑا بندی)وہ افغانستان میں قاری شفیع اللہ گروپ۔عبد اللہ شمورزئی کے نام سے موجود ہیں۔مجھے سُن کر بہت دُکھ ہوا۔حکیم صاحب کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں گروپ حکومت وقت سے قانون مفرد اعضاء کو قانونی حیثیت دِلوانے کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔ایک بات تو طے ہوئی کہ دونوں کا مقصد سرکار کو دیسی طب کی طرف مائل کرکے اطباء و عوام کے لئے قانونی جواز کی فراہمی میں کاوشیں کررہے ہیں۔ یوں وہ طاقت جسے یکجا ہونا چاہئے تھا تقسیم ہوکر اپنی اجتماعیت پارہ پارہ کرنے میں مصروف ہے۔جب کہ فائدہ یکجا ہونے میں ہے۔
پاکستان کے اطباء کی دھڑا بندی
پاکستان اور ہندستان کے اطباء میں بھی یہ بیماری موجود ہے ڈھروں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ذاتیات ۔تنظیموں اور مفادات کے تحفظ میں خلوص دل سے مصروف ہیں۔یہ تو لیڈروں کا حال ہے لیکن سطحی الذہن افرادجوحکماء کے روپ میں موجود لوگ ان دھڑوں کو خون جگر دیکر پروان چڑھانے مینںمشغول ہیں۔سب کا دعویٰ ہے کہ وہ طب کی خدمت میں مصروف ہیں۔طبیب حضرات کی عمومی سوچ ایک سرکاری نیم لپیٹ اور لیٹر پیڈ پر معالج یا حکیم لکھوانے کی سرکاری اجازت سے اُوپر جاتی ہی نہیں ہے۔
ایسے میںطب کی خدمت کا تصور کام خیالی ہے۔
اگر طب کی ہی خدمت مقصود ہے تو کوئی بھی بھلائی کام کرے اس کا ساتھ دینا چاہئے ناکہ اس کی ٹانگین کھینچیں۔البتہ طب کی سرپرستی کے لئے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو طبی میدان میں نمود و نمائش کے بغیر مشغول ہیں،خلق خدا میں ان کا احترام موجود ہے۔کچھ لوگ نقال۔اور طبیب کے روپ میں کچھ اور ہیں ۔مخلص لوگ کام میں مصروف ہیں جبکہ ایک طبقہ مفادات سمیٹنے میں مشغول ہے۔یعنی طب کےجسدخاکی سے ان کتروں کو مزید تار تار کرکے اپنا تن ڈھانپنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔۔
ورنہ پاک و ہند اور افغانستان مین جتنے لوگ طب سے وابسطہ ہیں۔وہ ادارے کالجز ہوں۔یا دوا خانے و مطب۔یا پھر حکمت کے نام پے فارمیسیاں۔یکجا ہوجائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ طب ترقی نہ کرے اور اس کے نسخوں اور اس کے متعلقین کی باتوں میں اثر پیدا نہ ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب حکومت کی طرف سے کوئی قدغن لگائی جاتی ہے یا طبیب لوگوں کو ریلیف دیا جاتا ہے ۔طبیب کے روپ میں دوا فروشوں کا رد عمل دیدنی ہوتا ہے۔۔
جب کہ طبیب خداداد صالحیتوں کا مالک و امین ہوتا ہے ۔اس کی بصیرت کے سب دریوزہ گر ہوتے ہیں۔طبیب کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ سب طبیب کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک ماہر و حاذق حکیم کو ہر معاشرہ سر انکھوں پر بٹھاتاہے۔لیکن دھوکہ باز ۔بہروپئے طبیب کے نام پر لوگوں کے اعتماد کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔۔۔باقی پھر کبھی فرصت ملی تو بات ہوگی۔۔۔
Pingback: Distribution of Afghanistan's doctors is the future of medicine. - Dunya Ka ilm